EN हिंदी
ملت شیاری | شیح شیری

ملت

36 شیر

ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا

افتخار نسیم




یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
اس نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں

اقبال عظیم




آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم

جاں نثاراختر




مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا

جون ایلیا




کس طرح تجھ سے ملاقات میسر ہووے
یہ دعا گو ترا نے زور نہ زر رکھتا ہے

جوشش عظیم آبادی




آج ناگاہ ہم کسی سے ملے
بعد مدت کے زندگی سے ملے

today I chanced on someone unexpectedly
it was after ages life was face to face with me

خمارؔ بارہ بنکوی




جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
حیف کہ اس سے ملاقات نہ ہونے پائی

خواجہ میر دردؔ