پیشتر جنبش لب بات سے پہلے کیا تھا
ذہن میں صفر کی اوقات سے پہلے کیا تھا
وصلت و ہجرت عشاق میں کیا تھا اول
نفی تھی بعد تو اثبات سے پہلے کیا تھا
کوئی گردش تھی کہ ساکت تھے زمین و خورشید
گنبد وقت میں دن رات سے پہلے کیا تھا
میں اگر پہلا تماشا تھا تماشا گہہ میں
مشغلہ اس کا مری ذات سے پہلے کیا تھا
کچھ وسیلہ تو رہا ہوگا شکم سیری کا
رزق خفتہ کہ نباتات سے پہلے کیا تھا
میں اگر آدم ثانی ہوں تو ورثہ ہے کہاں
ظرف اجداد میں اموات سے پہلے کیا تھا
ہر ملاقات کا انجام جدائی تھا اگر
پھر یہ ہنگامہ ملاقات سے پہلے کیا تھا
میں بھی مغلوب تھا حاجات کی کثرت سے مگر
لطف اس کو بھی مناجات سے پہلے کیا تھا
غزل
پیشتر جنبش لب بات سے پہلے کیا تھا
اعجاز گل