برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا
گر نام ہمارا سر مکتوب نہ ہوتا
خوبان جہاں کی ہے ترے حسن سے خوبی
تو خوب نہ ہوتا تو کوئی خوب نہ ہوتا
اسلام سے برگشتہ نہ ہوتے بخدا ہم
گر عشق بتاں طبع کے مرغوب نہ ہوتا
کیوں پھیر وہ دیتا مجھے لے کر مرے بر سے
اتنا جو دل زار یہ معیوب نہ ہوتا
اس بت کو خدا لایا ہے ہم پاس وگرنہ
جینے کا ہمارے کوئی اسلوب نہ ہوتا
دل آج کے دن پاس جو ہوتا مرے تو آہ!
آنے سے میں اس شوخ کے محجوب نہ ہوتا
ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت
ہم ہوتے نہ طالب جو وہ مطلوب نہ ہوتا
سر اپنا رہ عشق میں دیتا جو نہ جرأتؔ
تو مجمع عشاق کا سرکوب نہ ہوتا
غزل
برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا
جرأت قلندر بخش