EN हिंदी
برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا | شیح شیری
barham kabhi qasid se wo mahbub na hota

غزل

برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا

جرأت قلندر بخش

;

برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا
گر نام ہمارا سر مکتوب نہ ہوتا

خوبان جہاں کی ہے ترے حسن سے خوبی
تو خوب نہ ہوتا تو کوئی خوب نہ ہوتا

اسلام سے برگشتہ نہ ہوتے بخدا ہم
گر عشق بتاں طبع کے مرغوب نہ ہوتا

کیوں پھیر وہ دیتا مجھے لے کر مرے بر سے
اتنا جو دل زار یہ معیوب نہ ہوتا

اس بت کو خدا لایا ہے ہم پاس وگرنہ
جینے کا ہمارے کوئی اسلوب نہ ہوتا

دل آج کے دن پاس جو ہوتا مرے تو آہ!
آنے سے میں اس شوخ کے محجوب نہ ہوتا

ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت
ہم ہوتے نہ طالب جو وہ مطلوب نہ ہوتا

سر اپنا رہ عشق میں دیتا جو نہ جرأتؔ
تو مجمع عشاق کا سرکوب نہ ہوتا