نامہ بر بھی وہاں رسا نہ ہوا
کسی صورت مرا بھلا نہ ہوا
درد کی داد کون دے مجھ کو
تو ہی جب درد آشنا نہ ہوا
وہی مطلوب ہو وہی طالب
اک معما ہوا خدا نہ ہوا
مختصر بھی ہے اور جامع بھی
کیا ہوا کا جواب کیا نہ ہوا
ہاں کہو کچھ ہمیں بھی ہو معلوم
وہ گلہ کیا جو برملا نہ ہوا
عشق اس درد کا نہیں قائل
جو مصیبت کی انتہا نہ ہوا
تم سے تکمیل جور ہو نہ سکی
اس ادا کا بھی حق ادا نہ ہوا
اتنا پاس وفا تو ہے اس کو
بے وفائی سے بے وفا نہ ہوا
دل کشا تھی نگاہ ناز اس کی
تیر کیوں اس کا دل کشا نہ ہوا
دل کبھی خوش ہوا تو تھا لیکن
اس کا اب ذکر کیا ہوا نہ ہوا
قابل شکر ہے وہ صبر اے جوشؔ
جو کبھی دست التجا نہ ہوا
غزل
نامہ بر بھی وہاں رسا نہ ہوا
جوشؔ ملسیانی