عشق میں خود سے محبت نہیں کی جا سکتی
پر کسی کو یہ نصیحت نہیں کی جا سکتی
کنجیاں خانۂ ہمسایہ کی رکھتے کیوں ہو
اپنے جب گھر کی حفاظت نہیں کی جا سکتی
کچھ تو مشکل ہے بہت کار محبت اور کچھ
یار لوگوں سے مشقت نہیں کی جا سکتی
طائر یاد کو کم تھا شجر دل ورنہ
بے سبب ترک سکونت نہیں کی جا سکتی
اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی
کوئی ہو بھی تو ذرا چاہنے والا تیرا
راہ چلتوں سے رقابت نہیں کی جا سکتی
آسماں پر بھی جہاں لوگ جھگڑتے ہوں جمالؔ
اس زمیں کے لیے ہجرت نہیں کی جا سکتی
غزل
عشق میں خود سے محبت نہیں کی جا سکتی
جمال احسانی