EN हिंदी
جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے | شیح شیری
jab kabhi KHwab ki ummid bandha karti hai

غزل

جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے

جمال احسانی

;

جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے
نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے

یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

دیکھ بے چارگیٔ کوئے محبت کوئی دم
سائے کے واسطے دیوار دعا کرتی ہے

صورت دل بڑے شہروں میں رہ یک طرفہ
جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتی ہے

دو اجالوں کو ملاتی ہوئی اک راہ گزار
بے چراغی کے بڑے رنج سہا کرتی ہے