EN हिंदी
زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے | شیح شیری
zamin se uTThi hai ya charKH par se utri hai

غزل

زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے

انشاءؔ اللہ خاں

;

زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
یہ آگ عشق کی یا رب کدھر سے اتری ہے

اترتی نجد میں کب تھی سواریٔ لیلیٰ
ٹک آہ قیس کے جذب اثر سے اتری ہے

نہیں نسیم بہاری یہ ہے پری کوئی
اڑن کھٹولے کو ٹھہرا جو فر سے اتری ہے

نہ جان اس کو شب مہ یہ چاندنی خانم
کمند نور پہ اوج قمر سے اتری ہے

چلو نہ دیکھیں تو کہتے ہیں دشت وحشت میں
جنوں کی فوج بڑے کر و فر سے اتری ہے

نہیں یہ عشق تجلی ہے حق تعالی کی
جو راہ زینۂ بام نظر سے اتری ہے

لباس آہ میں لکھنے کے واسطے انشاؔ
قلم دوات تجھے عرش پر سے اتری ہے