کریں ہجرت تو خاک شہر بھی جز دان میں رکھ لیں
چلیں گھر سے تو گھر کیا یاد بھی سامان میں رکھ لیں
ہمارا کیا کہ گل کو نوچ کر تکریم بھی دے دیں
صحیفے میں سجا دیں یا کسی گلدان میں رکھ لیں
زیان دل ہی اس بازار میں سود محبت ہے
یہاں ہے فائدہ خود کو اگر نقصان میں رکھ لیں
بہت ترسی ہے دنیا تیرے حشر رونمائی کو
بتا اب یہ طلب ہم اور کس امکان میں رکھ لیں
ہمارا کفر یہ ہے حرف آتا ہو جہاں تجھ پر
ہمیں تو ہیں جو تیری آبرو ایمان میں رکھ لیں
اماں کی ایک ہی صورت ہے اب اس بے یقینی میں
پرند غار! ہم بھی جان تیری جان میں رکھ لیں
ڈھلے جب تک نہ شب ہم کاڑھ کر اک شمع کی لو سے
طلوع صبح کا منظر نہ روشندان میں رکھ لیں؟
غزل
کریں ہجرت تو خاک شہر بھی جز دان میں رکھ لیں
اقبال کوثر