EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی

بشیر بدر




اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری
لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے

بشیر بدر




خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بشیر بدر




کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
مرے پاؤں شعلوں پہ جلتے رہے

بشیر بدر




کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

she would have had compulsions surely
faithless without cause no one can be

بشیر بدر




مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے
خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے

بشیر بدر




میں چاہتا ہوں کہ تم ہی مجھے اجازت دو
تمہاری طرح سے کوئی گلے لگائے مجھے

بشیر بدر