EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے
ہم آج بہت سرشار سہی پر اگلا موڑ جدائی ہے

اطہر نفیس




کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں
محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں

اظہر عنایتی




دل میں اب کچھ بھی نہیں ان کی محبت کے سوا
سب فسانے ہیں حقیقت میں حقیقت کے سوا

عزیز وارثی




محبت لفظ تو سادہ سا ہے لیکن عزیزؔ اس کو
متاع دل سمجھتے تھے متاع دل سمجھتے ہیں

عزیز وارثی




نہ جانے کون سی منزل پہ عشق آ پہونچا
دعا بھی کام نہ آئے کوئی دوا نہ لگے

عزیز الرحمن شہید فتح پوری




ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار
اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی

بہادر شاہ ظفر




مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج
عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے

بہادر شاہ ظفر