EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

فاصلے ایسے کہ اک عمر میں طے ہو نہ سکیں
قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہے اس کا

باقر مہدی




عشق میں بو ہے کبریائی کی
عاشقی جس نے کی خدائی کی

بقا اللہ بقاؔ




خواہش سود تھی سودے میں محبت کے ولے
سر بسر اس میں زیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

بقا اللہ بقاؔ




تجھ میں اور مجھ میں تعلق ہے وہی
ہے جو رشتہ ساز اور مضراب میں

بشر نواز




عاشقی میں بہت ضروری ہے
بے وفائی کبھی کبھی کرنا

بشیر بدر




ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

بشیر بدر




عجیب رات تھی کل تم بھی آ کے لوٹ گئے
جب آ گئے تھے تو پل بھر ٹھہر گئے ہوتے

بشیر بدر