EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے

انجم سلیمی




ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
آگ دل میں دبائے بیٹھے ہیں

انور دہلوی




میں جو رویا ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے
حسن کی فطرت میں شامل ہے محبت کا مزاج

انور صابری




اس تعلق میں نہیں ممکن طلاق
یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں

انور شعور




عشق تو ہر شخص کرتا ہے شعورؔ
تم نے اپنا حال یہ کیا کر لیا

انور شعور




صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

انور شعور




زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا
مری جاں! میں تمہارا آدمی ہوں

انور شعور