EN हिंदी
چراغ ہاتھ میں ہو تو ہوا مصیبت ہے | شیح شیری
charagh hath mein ho to hawa musibat hai

غزل

چراغ ہاتھ میں ہو تو ہوا مصیبت ہے

انجم سلیمی

;

چراغ ہاتھ میں ہو تو ہوا مصیبت ہے
سو مجھ مریض انا کو شفا مصیبت ہے

سہولتیں تو مجھے راس ہی نہیں آتیں
قبولیت کی گھڑی میں دعا مصیبت ہے

اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے

میں آج ڈوب چلا ریت کے سمندر میں
چہار سمت یہ رقص ہوا مصیبت ہے

خود آگہی کا جو مجھ پر نزول جاری ہوا
میں کیا کہوں کہ یہ رحمت ہے یا مصیبت ہے

بہت جچا ہے یہ بے داغ پیرہن مجھ پر
گو خاک زاد کو ایسی قبا مصیبت ہے

میں کم ہی رہتا ہوں انجمؔ خدا کی صحبت میں
گناہ گار کو خوف خدا مصیبت ہے