یہ مت پوچھو کہ کیسا آدمی ہوں
کرو گے یاد، ایسا آدمی ہوں
مرا نام و نسب کیا پوچھتے ہو!
ذلیل و خوار و رسوا آدمی ہوں
تعارف اور کیا اس کے سوا ہو
کہ میں بھی آپ جیسا آدمی ہوں
زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا
مری جاں! میں تمہارا آدمی ہوں
چلے آیا کرو میری طرف بھی!
محبت کرنے والا آدمی ہوں
توجہ میں کمی بیشی نہ جانو
عزیزو! میں اکیلا آدمی ہوں
گزاروں ایک جیسا وقت کب تک
کوئی پتھر ہوں میں یا آدمی ہوں
شعورؔ آ جاؤ میرے ساتھ، لیکن!
میں اک بھٹکا ہوا سا آدمی ہوں
غزل
یہ مت پوچھو کہ کیسا آدمی ہوں
انور شعور