EN हिंदी
ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں | شیح شیری
un se hum lau lagae baiThe hain

غزل

ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں

انور دہلوی

;

ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
آگ دل میں دبائے بیٹھے ہیں

وہ جو گردن جھکائے بیٹھے ہیں
حشر کیا کیا اٹھائے بیٹھے ہیں

تیرے کوچے کے بیٹھنے والے
اپنی ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

زور بل اف رے اس نزاکت پر
خلق کا دل دکھائے بیٹھے ہیں

کیوں اٹھیں ان کی بزم سے اغیار
رنگ اپنا جمائے بیٹھے ہیں

کچھ نہیں خاک دشت الفت میں
ہم بہت خاک اڑائے بیٹھے ہیں

ہم نہیں آپ میں خوشی سے کہ وہ
گھر میں مہمان آئے بیٹھے ہیں

کیوں نہ پھیلائیں پاؤں بزم میں غیر
آپ کے سر چڑھائے بیٹھے ہیں

جنگجو وہ ملاپ میں بھی رہے
مجھ سے آنکھیں لڑائے بیٹھے ہیں

دل کے کھوٹے ہیں سب یہ سیم اندام
خوب ہم آزمائے بیٹھے ہیں

حسن نظارہ سوز ہے پردہ
گو وہ پردہ اٹھائے بیٹھے ہیں

اس کی عارض سے روکشی کیسی
گل پہ ہم خار کھائے بیٹھے ہیں

جیتے ہیں نام کو وگرنہ ہم
عشق میں جی کھپائے بیٹھے ہیں

ہار دیکھا بھی خون عاشق کا
آپ اور سر جھکائے بیٹھے ہیں

کیوں کہ بگڑا ہوا انہیں کہیے
بگڑے اور منہ بنائے بیٹھے ہیں

جی چرانا اور اس پہ ہائے ستم
آپ آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں

شرم بھی اک طرح کی چوری ہے
وہ بدن کو چرائے بیٹھے ہیں

جو کہ بیٹھے ہیں ان کی پیش نگاہ
موت آنے کی جائے بیٹھے ہیں

دیکھ ساقی کو اپنے دریا دل
ظرف میکش بڑھائے بیٹھے ہیں

اس کے در سے لگا کے مقتل تک
جاں فدا جائے جائے بیٹھے ہیں

غیر باتوں سے اور ہم آنکھوں سے
ایک طوفاں اٹھائے بیٹھے ہیں

ہے یہ روشن کہ ہے حجاب میں چاند
آپ کیا منہ چھپائے بیٹھے ہیں

اس خوشی میں حنا لگاتے ہیں
کہ مرا خوں بہائے بیٹھے ہیں

جانتا ہوں کہ قتل پر میرے
آپ بیڑا اٹھائے بیٹھے ہیں

میرے دل سوز بن کے یار مرے
مفت جی کو جلائے بیٹھے ہیں

کیا سکھائے گا ان کو ظلم فلک
خود وہ سیکھے سکھائے بیٹھے ہیں

ہے جہاں اس سے فیضیاب انورؔ
جس کے در پر ہم آئے بیٹھے ہیں