خواب ویسے تو اک عنایت ہے
آنکھ کھل جائے تو مصیبت ہے
جسم آیا کسی کے حصے میں
دل کسی اور کی امانت ہے
جان دینے کا وقت آ ہی گیا
اس تماشے کے بعد فرصت ہے
عمر بھر جس کے مشوروں پہ چلے
وہ پریشان ہے تو حیرت ہے
اب سنورنے کا وقت اس کو نہیں
جب ہمیں دیکھنے کی فرصت ہے
اس پہ اتنے ہی رنگ کھلتے ہیں
جس کی آنکھوں میں جتنی حیرت ہے
غزل
خواب ویسے تو اک عنایت ہے
شارق کیفی