EN हिंदी
خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے | شیح شیری
KHwab ka rishta haqiqat se na joDa jae

غزل

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے

ملک زادہ منظور احمد

;

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے

اب بھی بھر سکتے ہیں مے خانے کے سب جام و سبو
میرا بھیگا ہوا دامن جو نچوڑا جائے

ہر قدم مرحلۂ مرگ تمنا ہے مگر
زندگی پھر بھی ترا ساتھ نہ چھوڑا جائے

آؤ پھر آج کریدیں دل افسردہ کی راکھ
آؤ سوئی ہوئی یادوں کو جھنجھوڑا جائے

ہو وہ توبہ کہ ہو ساغر کہ ہو پیمان وفا
کچھ نہ کچھ آج تو مے خانے میں توڑا جائے

زلف و رخ آج بھی عنوان غزل ہیں منظورؔ
رخ ادھر گردش ایام کا موڑا جائے