خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے
اب بھی بھر سکتے ہیں مے خانے کے سب جام و سبو
میرا بھیگا ہوا دامن جو نچوڑا جائے
ہر قدم مرحلۂ مرگ تمنا ہے مگر
زندگی پھر بھی ترا ساتھ نہ چھوڑا جائے
آؤ پھر آج کریدیں دل افسردہ کی راکھ
آؤ سوئی ہوئی یادوں کو جھنجھوڑا جائے
ہو وہ توبہ کہ ہو ساغر کہ ہو پیمان وفا
کچھ نہ کچھ آج تو مے خانے میں توڑا جائے
زلف و رخ آج بھی عنوان غزل ہیں منظورؔ
رخ ادھر گردش ایام کا موڑا جائے
غزل
خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
ملک زادہ منظور احمد