عکس گل ہوں کہ نقش حیرت ہوں
آئنے میں تری ضرورت ہوں
گونجتا ہوں دلوں کے گنبد میں
ایک آوازۂ محبت ہوں
نارسائی مرا مقدر ہے
زیر لب اک بیان حسرت ہوں
دل آسودہ ہے وطن میرا
میں تمنائے دشت غربت ہوں
میں ہوں اک پیکر خیال و خواب
اور کتنی بڑی حقیقت ہوں
گرچہ میں حرف خاک ہوں خورشیدؔ
پھر بھی زیب کتاب فطرت ہوں
غزل
عکس گل ہوں کہ نقش حیرت ہوں
خورشید ربانی