ساقیا ایسا پلا دے مے کا مجھ کو جام تلخ
زندگی دشوار ہو اور ہو مجھے آرام تلخ
میں تو شیریں تر شکر سے بھی سمجھتا ہوں اسے
جب وہ دیتے ہیں برا کہہ کر مجھے دشنام تلخ
بزم مے میں ذکر تک آنے نہیں دیتے ہیں وہ
ہے ہمارا نام گویا زہر کا اک جام تلخ
کیا سبب لیتے نہیں وہ نام تک میرا کبھی
خوف اس کا ہے نہ ہو جائیں زبان و کام تلخ
عشق کے پھندے سے بچئے اے حقیرؔ خستہ دل
اس کا ہے آغاز شیریں اور ہے انجام تلخ

غزل
ساقیا ایسا پلا دے مے کا مجھ کو جام تلخ
حقیر