سینے میں راز عشق چھپایا نہ جائے گا
یہ آگ وہ ہے جس کو دبایا نہ جائے گا
سن لیجیے کہ ہے ابھی آغاز عاشقی
پھر ہم سے اپنا حال سنایا نہ جائے گا
اب صلح و آشتی کے زمانے گزر گئے
اب دوستی کا ہاتھ بڑھایا نہ جائے گا
ہم آہ تک بھی لا نہ سکیں گے زبان پر
وہ روٹھ جائیں گے تو منایا نہ جائے گا
وہ دور ہیں تو دل کو ہے اک اضطراب سا
وہ آئیں گے تو آپ میں آیا نہ جائے گا
غزل
سینے میں راز عشق چھپایا نہ جائے گا
حمید جالندھری