کڑا ہے دن بڑی ہے رات جب سے تم نہیں آئے
دگرگوں ہیں مرے حالات جب سے تم نہیں آئے
لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی گرمی ہو سردی ہو
نہیں رکتی کبھی برسات جب سے تم نہیں آئے
نہ کی جاتی ہے اوروں سے ملاقات ایک لمحے کو
نہ ہو پاتی ہے خود سے بات جب سے تم نہیں آئے
پتا چلتا نہیں تھا ساعتوں کا جب تم آتے تھے
گزرتے ہیں گراں لمحات جب سے تم نہیں آئے
نہ گھر والے نہ ہم سایے نہ احباب و اعزا ہیں
یہ دل ہے یا خدا کی ذات جب سے تم نہیں آئے
غزل
کڑا ہے دن بڑی ہے رات جب سے تم نہیں آئے
انور شعور