EN हिंदी
پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو | شیح شیری
phir koi naya zaKHm naya dard ata ho

غزل

پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو

اطہر نفیس

;

پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو
اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو

اب دل میں سر شام چراغاں نہیں ہوتا
شعلہ ترے غم کا کہیں بجھنے نہ لگا ہو

کب عشق کیا کس سے کیا جھوٹ ہے یارو
بس بھول بھی جاؤ جو کبھی ہم سے سنا ہو

دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

شاید کہ ترے قرب سے آ جائے میسر
وہ درد کہ جو درد جدائی سے سوا ہو

اب میری غزل کا بھی تقاضا ہے یہ تجھ سے
انداز و ادا کا کوئی اسلوب نیا ہو