سخن کے چاک میں پنہاں تمہاری چاہت ہے
وگرنہ کوزہ گری کی کسے ضرورت ہے
زمیں کے پاس کسی درد کا علاج نہیں
زمین ہے کہ مرے عہد کی سیاست ہے
یہ انتظار نہیں شمع ہے رفاقت کی
اس انتظار سے تنہائی خوبصورت ہے
میں کیسے وار دوں تجھ پر مرے ستارۂ شام
یہ حرف خواب تو اک چاند کی امانت ہے
میں خاک خواب پلک سے جھٹکنے والا تھا
پتا چلا کہ یہی حاصل مسافت ہے
یہ مستطیل سا خاکہ کہ جس کو گھر کہیے
اسی کے دائرہ و در میں میری جنت ہے
یہ خوشہ چینی خوان انیسؔ ہے ارشدؔ
نمک نمط جو مرے شعر میں فصاحت ہے
غزل
سخن کے چاک میں پنہاں تمہاری چاہت ہے
ارشد عبد الحمید