لڑ ہی جائے کسی نگار سے آنکھ
کاش ٹھہرے کہیں قرار سے آنکھ
کچھ محبت ہے کچھ مروت ہے
آج پڑتی ہے مجھ پہ پیار سے آنکھ
چلتے رہتے ہیں خوب تیر نگاہ
باز آتی نہیں شکار سے آنکھ
ٹکٹکی سے کہاں ملی فرصت
آ گئی عاجز انتظار سے آنکھ
کیا پڑی ہے بلا کو اس کی عرض
کیوں ملائے امیدوار سے آنکھ
کوئی تدبیر بن نہیں پڑتی
کیا ملے چشم شرمسار سے آنکھ
نیچی نظروں سے دیکھ لیتے ہیں
کیا ملائیں وہ بے قرار سے آنکھ
دید بازی کا جس کو لپکا ہے
کب ٹھہرتی ہے اضطرار سے آنکھ
نظروں نظروں میں باتیں ہوتی ہیں
خوب ملتی ہے رازدار سے آنکھ
کیوں یہ ملتی ہے بے وفاؤں سے
کاش لڑتی وفا شعار سے آنکھ
کبھی در پر کبھی ہے رستے میں
نہیں تھکتی ہے انتظار سے آنکھ
مرنے کے بعد بھی تھی شرم ان کو
کہ چرائی مرے مزار سے آنکھ
صبح محشر اٹھا نہیں جاتا
اب بھی کھلتی نہیں خمار سے آنکھ
دل غنی ہے مرا تو کیا پروا
کب ملاتا ہوں مال دار سے آنکھ
کیوں جھکاؤں نظر بشیرؔ اپنی
کبھی جھپکی نہیں ہزار سے آنکھ
غزل
لڑ ہی جائے کسی نگار سے آنکھ
بشیر الدین احمد دہلوی