EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ٹوٹا تو عزیز اور ہوا اہل وفا کو
دل بھی کہیں اس شوخ کا پیماں تو نہیں ہے

عظیم مرتضی




وہی یکسانیت شام و سحر ہے کہ جو تھی
زندگی دست بہ دل خاک بسر ہے کہ جو تھی

عظیم مرتضی




چاند کو تم آواز تو دے لو
ایک مسافر تنہا تو ہے

عظیم قریشی




ہم بھی کسی شیریں کے لیے خانہ بدر تھے
فرہاد رہ عشق میں تنہا تو نہ نکلا

عظیم قریشی




ہجر میں اس نگار تاباں کے
لمحہ لمحہ برس ہے کیا کیجے

عظیم قریشی




حسن اور عشق ہیں دونوں کافر
دونوں میں اک جھگڑا سا ہے

عظیم قریشی




جم بھی وہی دارا بھی سکندر بھی وہی ہے
جی کر بھی ترا اور جو مر کر بھی ترا ہے

عظیم قریشی