EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آج تک یاد ہے وہ شام جدائی کا سماں
تیری آواز کی لرزش ترے لہجے کی تھکن

عظیم مرتضی




اب امتیاز ظاہر و باطن بھی مٹ گیا
دل چاک ہو رہا ہے گریباں کے ساتھ ساتھ

عظیم مرتضی




بے خودی میں جسے ہم سمجھے ہیں تیرا دامن
عین ممکن ہے کہ اپنا ہی گریباں نکلے

عظیم مرتضی




بیتابیٔ حیات میں آسودگی بھی تھی
کچھ تیرا غم بھی تھا غم دوراں کے ساتھ ساتھ

عظیم مرتضی




درد محرومئ جاوید بھی اک دولت ہے
اہل غم بھی ترے شرمندۂ احساں نکلے

عظیم مرتضی




ایک درد ہستی نے عمر بھر رفاقت کی
ورنہ ساتھ دیتا ہے کون آخری دم تک

عظیم مرتضی




ہم درد کے مارے ہی گراں جاں ہیں وگرنہ
جینا تری فرقت میں کچھ آساں تو نہیں ہے

عظیم مرتضی