EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اے شہر ستم چھوڑ کے جاتے ہوئے لوگو
اب راہ میں کوئی بھی مدینہ نہیں آتا

اظہر ادیب




بے خوابی کب چھپ سکتی ہے کاجل سے بھی
جاگنے والی آنکھ میں لالی رہ جاتی ہے

اظہر ادیب




دشت شب میں پتا ہی نہیں چل سکا
اپنی آنکھیں گئیں یا ستارے گئے

اظہر ادیب




دیر لگتی ہے بہت لوٹ کے آتے آتے
اور وہ اتنے میں ہمیں بھول چکا ہوتا ہے

اظہر ادیب




دونوں ہاتھوں سے چھپا رکھا ہے منہ
آئنے کے وار سے ڈرتا ہوں میں

اظہر ادیب




ایک لمحے کو سہی اس نے مجھے دیکھا تو ہے
آج کا موسم گزشتہ روز سے اچھا تو ہے

اظہر ادیب




غزل اس کے لئے کہتے ہیں لیکن درحقیقت ہم
گھنے جنگل میں کرنوں کے لئے رستہ بناتے ہیں

اظہر ادیب