EN हिंदी
کرب ہجراں زبس ہے کیا کیجے | شیح شیری
karb-e-hijran zi-bas hai kya kije

غزل

کرب ہجراں زبس ہے کیا کیجے

عظیم قریشی

;

کرب ہجراں زبس ہے کیا کیجے
ہم کو تیری ہوس ہے کیا کیجے

نے دماغ وصال ہے ہم کو
کچھ انہیں پیش و پس ہے کیا کیجے

ہجر میں اس نگار تاباں کے
لمحہ لمحہ برس ہے کیا کیجے

نگہت گل کے آبگینوں میں
مرگ شیریں کا رس ہے کیا کیجے

گرچہ درویش ہے عظیمؔ مگر
اس کو تجھ سے بھی مس ہے کیا کیجے