وہی یکسانیت شام و سحر ہے کہ جو تھی
زندگی دست بہ دل خاک بسر ہے کہ جو تھی
دیکھ کر بھی ترے جلوے نہیں دیکھے جاتے
وہی پابندیٔ آداب نظر ہے کہ جو تھی
تجھ سے مل کر بھی غم ہجر کی تلخی نہ مٹی
ایک حسرت سی یہ انداز دگر ہے کہ جو تھی
شعلۂ درد بجھے دیر ہوئی ہے لیکن
وہی تابندگیٔ دیدۂ تر ہے کہ جو تھی
تو مری جان نہیں اب مگر اے جان عظیمؔ
زندگی اب بھی تری دست نگر ہے کہ جو تھی
غزل
وہی یکسانیت شام و سحر ہے کہ جو تھی
عظیم مرتضی