یہ پھول جو مٹی کے ہیولوں سے اٹا ہے
ماضی کا کوئی خواب ہے مانوس صدا ہے
سوکھا ہوا پتا ہوں کہ بے ڈال پڑا ہوں
کیا جانئے کس کے لیے یہ جوگ لیا ہے
اے خار چمن زار منجم تو نہیں تو
فردا کا ہر اک راز ترے لب سے سنا ہے
پوچھو یہ ستاروں سے کہ توضیح کریں وہ
کیوں لاش پہ یوں چاند کی ماتم سا بپا ہے
دکھتے ہوئے دل سے کئی شہکار نکالے
اس دور کو ہم نے ہی ضیا پاش کیا ہے
جم بھی وہی دارا بھی سکندر بھی وہی ہے
جی کر بھی ترا اور جو مر کر بھی ترا ہے
تو مجھ سے گریزاں ہے تو میں تجھ پہ ہوں قرباں
عشوہ ہے جو وہ تیرا تو یہ میری ادا ہے
فن کار نے سمجھا نہ مغنی ہی نے سمجھا
جو سر نہاں ایک قلندر نے کہا ہے
میں پھر بھی عظیمؔ اس کی اداؤں پہ مٹا ہوں
جو مرگ کا عنواں مری ہستی کی بقا ہے
غزل
یہ پھول جو مٹی کے ہیولوں سے اٹا ہے
عظیم قریشی