بیچ دلوں میں اترا تو ہے
درد ترا البیلا تو ہے
روپ ترا اے راجکماری
جیسے میری رچنا تو ہے
چاند کو تم آواز تو دے لو
ایک مسافر تنہا تو ہے
سرجن ہارا سرجن ہارا
تجھ بن بالک بلکا تو ہے
سر عالم کچھ کچھ ہم نے
سوچا تو ہے جانا تو ہے
کتنی صبحیں برہم ہوں گی
شعلہ امشب بھڑکا تو ہے
کہنے والے کہتا جا تو
سننے والا سنتا تو ہے
مزد کبھی برباد نہ ہوگی
نزد و دور یہ چرچا تو ہے
مرگ کو یوں بے نام نہ سمجھو
ایک تخیل اجلا تو ہے
صبح عشق اکیلی کب ہے
شام غم کا پہرا تو ہے
مگھم مگھم پنہاں پنہاں
بات کا افسوں گہرا تو ہے
خواب سہی گر نقش عالم
انساں آتا جاتا تو ہے
کھوج میں اس کی برسوں پھر کے
چاند نگر پہچانا تو ہے
رستے بستے باغ میں یارو
مرگ کا ہر دم کھٹکا تو ہے
تیرا عظیمؔ اے جان عالم
میرؔ کی لے میں گاتا تو ہے
غزل
بیچ دلوں میں اترا تو ہے
عظیم قریشی