رنگ کہاں ہے سایا سا ہے
نقش کہاں ہے دھوکا سا ہے
صبح کی رنگت زردی مائل
شام نہیں ہے دھڑکا سا ہے
دل کا خون ہوا ہو شاید
دور پرے جو کہرا سا ہے
سیل عشق تھما کب ہوگا
دریا ہے اور چڑھتا سا ہے
لب اس کے جو کھلتے دیکھے
ایک جہاں کچھ ہنستا سا ہے
اصل میں نقش کیف ہستی
فانی سا ہے مٹتا سا ہے
حسن اور عشق ہیں دونوں کافر
دونوں میں اک جھگڑا سا ہے
آؤ پیار سے دھو لیں اس کو
نقش جہاں کچھ میلا سا ہے
غزل
رنگ کہاں ہے سایا سا ہے
عظیم قریشی