EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہزار کارواں یوں تو ہیں میرے ساتھ مگر
جو میرے نام ہے وہ قافلہ کب آئے گا

اکرم نقاش




عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر
کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے

اکرم نقاش




جیسے پانی پہ نقش ہو کوئی
رونقیں سب عدم ثبات رہیں

اکرم نقاش




جیوں گا میں تری سانسوں میں جب تک
خود اپنی سانس میں زندہ رہوں گا

اکرم نقاش




کچھ تو عنایتیں ہیں مرے کارساز کی
اور کچھ مرے مزاج نے تنہا کیا مجھے

اکرم نقاش




میسر سے زیادہ چاہتا ہے
سمندر جیسے دریا چاہتا ہے

اکرم نقاش




رکھوں کہاں پہ پاؤں بڑھاؤں کدھر قدم
رخش خیال آج ہے بے اختیار پھر

اکرم نقاش