دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے
پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے
ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف
تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے
ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات
آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے
دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت
روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے
اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا
رات کچھ اور بڑھے چاند دوبارہ نکلے
آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں
بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے
عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر
کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے
سحر نے تیرے عجب راہ سجھائی ہم دم
ہم کہاں جانے کو نکلے تھے کہاں آ نکلے
غزل
دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے
اکرم نقاش