میں نہیں ہوں نہیں کہیں بھی نہیں
اب کوئی آسمان ہے نہ زمیں
ایک دنیا ہوئی ہے زیر نگیں
شہ نشیں ہو گیا ہے خاک نشیں
یہ سکوں بھی ہوا ملال کے ساتھ
وہ بہر طور جی رہا ہے یہیں
بارہا تو نے خواب دکھلائے
بارہا ہم نے کر لیا ہے یقیں
ایک ویرانہ تھا بسا نہ کبھی
بستیاں ہم سے گو ہزار بسیں
جیسے پانی پہ نقش ہو کوئی
رونقیں سب عدم ثبات رہیں
غرفۂ درد کس نے کھول دیا
تو تو اب میرے آس پاس نہیں
غزل
میں نہیں ہوں نہیں کہیں بھی نہیں
اکرم نقاش