لہو تیزاب کرنا چاہتا ہے
بدن اک آگ دریا چاہتا ہے
میسر سے زیادہ چاہتا ہے
سمندر جیسے دریا چاہتا ہے
اسے بھی سانس لینے دے کہ ہر دم
بدن باہر نکلنا چاہتا ہے
مجھے بالکل یہ اندازہ نہیں تھا
وہ اب رستہ بدلنا چاہتا ہے
نئی زنجیر پھیلائے ہے بانہیں
کوئی آزاد ہونا چاہتا ہے
رتیں بدلیں نئے پھل پھول آئے
مگر دل سب پرانا چاہتا ہے
سکوں کہیے جسے ہے راستے میں
دو اک پل ہی میں آیا چاہتا ہے
ہوا بھی چاہئے اور روشنی بھی
ہر اک حجرہ دریچہ چاہتا ہے
بگولوں سے بھرا ہے دشت سارا
یہی تو روز صحرا چاہتا ہے
غزل
لہو تیزاب کرنا چاہتا ہے
اکرم نقاش