قرار گم شدہ میرے خدا کب آئے گا
مری دعاؤں میں رنگ دعا کب آئے گا
بدن سے بھرنے لگے ہیں ہم اپنی روح کے گھاؤ
ہمیں سلیقۂ دارو دوا کب آئے گا
یہیں کہیں سے وہ آواز دے رہا ہے مگر
نواح جاں میں مرا نا خدا کب آئے گا
غروب ہوتا ہوا روشنی کا سیارہ
اندھیرے موسموں میں کیا پتا کب آئے گا
سماعتوں کو مری مرغزار کرنے کو
خموش دشت میں نخل صدا کب آئے گا
ہزار کارواں یوں تو ہیں میرے ساتھ مگر
جو میرے نام ہے وہ قافلہ کب آئے گا
فصیلیں ٹوٹ گئیں ہو گئے محل مسمار
کھنڈر میں رات گئے دوسرا کب آئے گا
غزل
قرار گم شدہ میرے خدا کب آئے گا
اکرم نقاش