حیرت سے دیکھتا ہوا چہرہ کیا مجھے
صحرا کیا کبھی کبھی دریا کیا مجھے
کچھ تو عنایتیں ہیں مرے کارساز کی
اور کچھ مرے مزاج نے تنہا کیا مجھے
پتھرا گئی ہے آنکھ بدن بولتا نہیں
جانے کس انتظار نے ایسا کیا مجھے
تو تو سزا کے خوف سے آزاد تھا مگر
میری نگاہ سے کوئی دیکھا کیا مجھے
آنکھوں میں ریت پھیل گئی دیکھتا بھی کیا
سوچوں کے اختیار نے کیا کیا کیا مجھے

غزل
حیرت سے دیکھتا ہوا چہرہ کیا مجھے
اکرم نقاش