EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پاؤں اٹھتے ہیں کسی موج کی جانب لیکن
روک لیتا ہے کنارہ کہ ٹھہر پانی ہے

اکرم محمود




ستارہ آنکھ میں دل میں گلاب کیا رکھنا
کہ ڈھلتی عمر میں رنگ شباب کیا رکھنا

اکرم محمود




وقت کہاں رکا بھلا پر یہ کسے گمان تھا
عمر کی زد میں آئے گا تجھ سا پری جمال بھی

اکرم محمود




اندھا سفر ہے زیست کسے چھوڑ دے کہاں
الجھا ہوا سا خواب ہے تعبیر کیا کریں

اکرم نقاش




بارہا تو نے خواب دکھلائے
بارہا ہم نے کر لیا ہے یقیں

اکرم نقاش




بدن ملبوس میں شعلہ سا اک لرزاں قرین جاں
دل خاشاک بھی شعلہ ہوا جلتا رہا میں بھی

اکرم نقاش




ہوا بھی چاہئے اور روشنی بھی
ہر اک حجرہ دریچہ چاہتا ہے

اکرم نقاش