EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جو خس بدن تھا جلا بہت کئی نکہتوں کی تلاش میں
میں تمام لوگوں سے مل چکا تری قربتوں کی تلاش میں

مصور سبزواری




کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے
ندی میں چپکے سے اک چیخ ڈوب جاتی ہے

مصور سبزواری




ختم ہونے دے مرے ساتھ ہی اپنا بھی وجود
تو بھی اک نقش خرابے کا ہے مر جا مجھ میں

مصور سبزواری




کسی کو قصۂ پاکیٔ چشم یاد نہیں
یہ آنکھیں کون سی برسات میں نہائی تھیں

مصور سبزواری




کیا نہ ترک مراسم پہ احتجاج اس نے
کہ جیسے گزرے کسی منزل نجات سے وہ

مصور سبزواری




میں سنگ رہ ہوں تو ٹھوکر کی زد پہ آؤں گا
تم آئینہ ہو تو پھر ٹوٹنا ضروری ہے

مصور سبزواری




میں سنگ رہ نہیں جو اٹھا کر تو پھینک دے
میں ایسا مرحلہ ہوں جو سو بار آئے گا

مصور سبزواری