جو خس بدن تھا جلا بہت کئی نکہتوں کی تلاش میں 
میں تمام لوگوں سے مل چکا تری قربتوں کی تلاش میں
مصور سبزواری
کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے 
ندی میں چپکے سے اک چیخ ڈوب جاتی ہے
مصور سبزواری
ختم ہونے دے مرے ساتھ ہی اپنا بھی وجود 
تو بھی اک نقش خرابے کا ہے مر جا مجھ میں
مصور سبزواری
کسی کو قصۂ پاکیٔ چشم یاد نہیں 
یہ آنکھیں کون سی برسات میں نہائی تھیں
مصور سبزواری
کیا نہ ترک مراسم پہ احتجاج اس نے 
کہ جیسے گزرے کسی منزل نجات سے وہ
مصور سبزواری
میں سنگ رہ ہوں تو ٹھوکر کی زد پہ آؤں گا 
تم آئینہ ہو تو پھر ٹوٹنا ضروری ہے
مصور سبزواری
میں سنگ رہ نہیں جو اٹھا کر تو پھینک دے 
میں ایسا مرحلہ ہوں جو سو بار آئے گا
مصور سبزواری

