تم ایسے بے خبر بھی شاذ ہوں گے اس زمانے میں 
کہ دل میں رہ کے اندازہ نہیں ہے دل کی حالت کا
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی
وحشیوں کو قید سے چھوٹے ہوئے مدت ہوئی 
گونجتا ہے شور اب تک کان میں زنجیر کا
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی
وہ نگاہ شرمگیں ہو یا کسی کا انکسار 
جھک کے جو مجھ سے ملا وہ ایک خنجر ہو گیا
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی
وہ شمع نہیں ہیں کہ ہوں اک رات کے مہماں 
جلتے ہیں تو بجھتے نہیں ہم وقت سحر بھی
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی
یا دل ہے مرا یا ترا نقش کف پا ہے 
گل ہے کہ اک آئینہ سر راہ پڑا ہے
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی
یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ 
سن رکھو فسانہ ہیں ہم لوگ
منتظر لکھنوی
سہارا نہ دیتی اگر موج طوفاں 
ڈبو ہی دیا تھا ہمیں نا خدا نے
مقیم احسان کلیمؔ

