EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تم ایسے بے خبر بھی شاذ ہوں گے اس زمانے میں
کہ دل میں رہ کے اندازہ نہیں ہے دل کی حالت کا

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی




وحشیوں کو قید سے چھوٹے ہوئے مدت ہوئی
گونجتا ہے شور اب تک کان میں زنجیر کا

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی




وہ نگاہ شرمگیں ہو یا کسی کا انکسار
جھک کے جو مجھ سے ملا وہ ایک خنجر ہو گیا

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی




وہ شمع نہیں ہیں کہ ہوں اک رات کے مہماں
جلتے ہیں تو بجھتے نہیں ہم وقت سحر بھی

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی




یا دل ہے مرا یا ترا نقش کف پا ہے
گل ہے کہ اک آئینہ سر راہ پڑا ہے

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی




یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ
سن رکھو فسانہ ہیں ہم لوگ

منتظر لکھنوی




سہارا نہ دیتی اگر موج طوفاں
ڈبو ہی دیا تھا ہمیں نا خدا نے

مقیم احسان کلیمؔ