پہچان کا اثاثہ وہ جب ہار آئے گا 
چہرے نئے خریدنے بازار آئے گا 
رنگوں کے قافلے نہیں اب میرے ہم سفر 
ہم راہ ایک برگ عزا دار آئے گا 
ناموس صبح کربلا اپنی ردا سنبھال 
چل کر ابھی تو شام کا دربار آئے گا 
دیوار و در میں دیر سے سرگوشیاں سی ہیں 
فاتح قبیلوں کا کوئی سردار آئے گا 
مفتوح بستیوں پہ ہے یلغار کی گھڑی 
گلیوں میں ایک لشکر جرار آئے گا 
میں سنگ رہ نہیں جو اٹھا کر تو پھینک دے 
میں ایسا مرحلہ ہوں جو سو بار آئے گا 
بچے جوان ہو گئے نا طاقتی کے ساتھ 
کب بازوؤں میں زور علم دار آئے گا
 
        غزل
پہچان کا اثاثہ وہ جب ہار آئے گا
مصور سبزواری

