اسی نے ہجرتیں کچھ اور بھی بتائی تھیں
وہ شخص جس کے لیے کشتیاں جلائی تھیں
ملا تھا کیا تمہیں بولو عظیم فنکارو
مرے قلم نے تو گم نامیاں کمائی تھیں
ابھی تو ہاتھ میں ہی سنگ پارے تھے لیکن
سکوت آب پہ کتنی خراشیں آئی تھیں
اڑا کے برگ خزاں دیدہ کی طرح اک روز
اسی نے پوچھا تھا پھر آندھیاں کب آئی تھیں
کسی کو قصۂ پاکیٔ چشم یاد نہیں
یہ آنکھیں کون سی برسات میں نہائی تھیں
تعلقات میں سنجیدہ موڑ جب آئے
تو احتیاطیں بہت اس کی یاد آئی تھیں
غزل
اسی نے ہجرتیں کچھ اور بھی بتائی تھیں
مصور سبزواری