EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دیکھ وہ دشت کی دیوار ہے سب کا مقتل
اس برس جاؤں گا میں اگلے برس جائے گا تو

مصور سبزواری




فیصلہ تھے وقت کا پھر بے اثر کیسے ہوئے
سچ کی پیشانی پہ ہم جھوٹی خبر کیسے ہوئے

مصور سبزواری




گزرتے پتوں کی چاپ ہوگی تمہارے صحن انا کے اندر
فسردہ یادوں کی بارشیں بھی مجھے بھلانے کے بعد ہوں گی

مصور سبزواری




ہمارے بیچ میں اک اور شخص ہونا تھا
جو لڑ پڑے تو کوئی بھی نہیں منانے کا

مصور سبزواری




حصار گوش سماعت کی دسترس میں کہاں
تو وہ صدا جو فقط جسم کو سنائی دے

مصور سبزواری




اسی امید پہ جلتی ہیں دشت دشت آنکھیں
کبھی تو آئے گا عمر خراب کاٹ کے وہ

مصور سبزواری




جسے میں چھو نہیں سکتا دکھائی کیوں وہ دیتا ہے
فرشتوں جیسی بس میری عبادت دیکھتے رہنا

مصور سبزواری