دیکھ وہ دشت کی دیوار ہے سب کا مقتل 
اس برس جاؤں گا میں اگلے برس جائے گا تو
مصور سبزواری
فیصلہ تھے وقت کا پھر بے اثر کیسے ہوئے 
سچ کی پیشانی پہ ہم جھوٹی خبر کیسے ہوئے
مصور سبزواری
گزرتے پتوں کی چاپ ہوگی تمہارے صحن انا کے اندر 
فسردہ یادوں کی بارشیں بھی مجھے بھلانے کے بعد ہوں گی
مصور سبزواری
ہمارے بیچ میں اک اور شخص ہونا تھا 
جو لڑ پڑے تو کوئی بھی نہیں منانے کا
مصور سبزواری
حصار گوش سماعت کی دسترس میں کہاں 
تو وہ صدا جو فقط جسم کو سنائی دے
مصور سبزواری
اسی امید پہ جلتی ہیں دشت دشت آنکھیں 
کبھی تو آئے گا عمر خراب کاٹ کے وہ
مصور سبزواری
جسے میں چھو نہیں سکتا دکھائی کیوں وہ دیتا ہے 
فرشتوں جیسی بس میری عبادت دیکھتے رہنا
مصور سبزواری

