حسین ہی تھا جو پیاسا اٹھا فرات سے وہ
لہولہان سمندر تھا اپنی ذات سے وہ
فصیل شب کی کمیں گاہیں اس پہ سب روشن
نہ جانے گزرے گا کب جائے واردات سے وہ
کیا نہ ترک مراسم پہ احتجاج اس نے
کہ جیسے گزرے کسی منزل نجات سے وہ
پرندے لوٹ رہے ہیں کھلے بسیروں میں
گیا ہے گھر سے بھی لڑ کر گزشتہ رات سے وہ
نہ جانے کیا ہیں یہ دیمک زدہ سی تحریریں
ڈرا ڈرا سا ہے بوسیدہ کاغذات سے وہ
غزل
حسین ہی تھا جو پیاسا اٹھا فرات سے وہ
مصور سبزواری