EN हिंदी
کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے | شیح شیری
kanar-e-ab hawa jab bhi sansanati hai

غزل

کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے

مصور سبزواری

;

کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے
ندی میں چپکے سے اک چیخ ڈوب جاتی ہے

دکھائی دیتی ہیں لاشیں ہی لاشیں آنگن میں
کہاں سے خودکشی کر کے یہ دھوپ آتی ہے

وہ شے جو بیٹھتی ہے چھپ کے ننگے پیڑوں میں
گزرتے وقت بہت تالیاں بجاتی ہے

پیوں شراب میں دشمن کے کاسۂ سر میں
یہ بزدل آرزو کیسی ہنسی اڑاتی ہے

مصورؔ اس کو بتاتے ہیں زانیہ یہ لوگ
کنویں میں اپنی جو سب نیکیاں گراتی ہے