ٹوٹتے جسم کے مہتاب بکھر جا مجھ میں
میں چڑھی رات کا دریا ہوں اتر جا مجھ میں
میں تری یاد کے ساون کو کہاں برساؤں
اب کی رت میں کوئی بادل بھی نہ گرجا مجھ میں
جانے میں کون سے پت جھڑ میں ہوا تھا برباد
گرتے پتوں کی اک آواز ہے ہر جا مجھ میں
کوئی مہکار ہے پھولوں کی نہ رنگوں کی لکیر
ایک صحرا ہوں کہیں سے بھی گزر جا مجھ میں
ختم ہونے دے مرے ساتھ ہی اپنا بھی وجود
تو بھی اک نقش خرابے کا ہے مر جا مجھ میں
غزل
ٹوٹتے جسم کے مہتاب بکھر جا مجھ میں
مصور سبزواری