EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مرے بچے ترا بچپن تو میں نے بیچ ڈالا
بزرگی اوڑھ کر کاندھے ترے خم ہو گئے ہیں

مصور سبزواری




نہ سوچو ترک تعلق کے موڑ پر رک کر
قدم بڑھاؤ کہ یہ حادثہ ضروری ہے

مصور سبزواری




نہ ٹوٹ کر اتنا ہم کو چاہو کہ رو پڑیں ہم
دبی دبائی سی چوٹ اک اک ابھر گئی ہے

مصور سبزواری




رشتوں کا بوجھ ڈھونا دل دل میں کڑھتے رہنا
ہم ایک دوسرے پر احسان ہو گئے ہیں

مصور سبزواری




صف منافقاں میں پھر وہ جا ملا تو کیا عجب
ہوئی تھی صلح بھی خموش اختلاف کی طرح

مصور سبزواری




سجنی کی آنکھوں میں چھپ کر جب جھانکا
بن ہولی کھیلے ہی ساجن بھیگ گیا

مصور سبزواری




تھے اس کے ساتھ زوال سفر کے سب منظر
وہ دکھتے دل کے بہت سنگ میل چھوڑ گیا

مصور سبزواری