مرے بچے ترا بچپن تو میں نے بیچ ڈالا 
بزرگی اوڑھ کر کاندھے ترے خم ہو گئے ہیں
مصور سبزواری
نہ سوچو ترک تعلق کے موڑ پر رک کر 
قدم بڑھاؤ کہ یہ حادثہ ضروری ہے
مصور سبزواری
نہ ٹوٹ کر اتنا ہم کو چاہو کہ رو پڑیں ہم 
دبی دبائی سی چوٹ اک اک ابھر گئی ہے
مصور سبزواری
رشتوں کا بوجھ ڈھونا دل دل میں کڑھتے رہنا 
ہم ایک دوسرے پر احسان ہو گئے ہیں
مصور سبزواری
صف منافقاں میں پھر وہ جا ملا تو کیا عجب 
ہوئی تھی صلح بھی خموش اختلاف کی طرح
مصور سبزواری
سجنی کی آنکھوں میں چھپ کر جب جھانکا 
بن ہولی کھیلے ہی ساجن بھیگ گیا
مصور سبزواری
تھے اس کے ساتھ زوال سفر کے سب منظر 
وہ دکھتے دل کے بہت سنگ میل چھوڑ گیا
مصور سبزواری

