تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو
کب سے پلکوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو
میرے حصے کی زمیں بنجر تھی میں واقف نہ تھا
بے سبب الزام میں دیتا رہا برسات کو
کیسی بستی تھی جہاں پر کوئی بھی ایسا نہ تھا
منکشف میں جس پہ کرتا اپنے دل کی بات کو
ساری دنیا کے مسائل یوں مجھے درپیش ہیں
تیرا غم کافی نہ ہو جیسے گزر اوقات کو
غزل
تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو
شہریار