EN हिंदी
جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے | شیح شیری
jab bhi milti hai mujhe ajnabi lagti kyun hai

غزل

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے

شہریار

;

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے
زندگی روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے

دھوپ کے قہر کا ڈر ہے تو دیار شب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے

مجھ کو اپنا نہ کہا اس کا گلا تجھ سے نہیں
اس کا شکوہ ہے کہ بیگانہ سمجھتی کیوں ہے

تجھ سے مل کر بھی نہ تنہائی مٹے گی میری
دل میں رہ رہ کے یہی بات کھٹکتی کیوں ہے

مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو مری وحشت کا سبب
بوئے آوارہ سے پوچھو کہ بھٹکتی کیوں ہے