جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے
زندگی روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے
دھوپ کے قہر کا ڈر ہے تو دیار شب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
مجھ کو اپنا نہ کہا اس کا گلا تجھ سے نہیں
اس کا شکوہ ہے کہ بیگانہ سمجھتی کیوں ہے
تجھ سے مل کر بھی نہ تنہائی مٹے گی میری
دل میں رہ رہ کے یہی بات کھٹکتی کیوں ہے
مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو مری وحشت کا سبب
بوئے آوارہ سے پوچھو کہ بھٹکتی کیوں ہے
غزل
جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے
شہریار